عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیوایچ او) نے 2016ء میں یہ بیانیہ جاری کیا کہ پوری دنیا کی بیس فیصد سے زائد آبادی مٹاپے کا شکار ہے۔ یہ شرح بڑھتی جارہی ہے، یعنی اگلے چند عشروں میں اضافی وزن کا مسئلہ وبائ شکل اختیار کرسکتا ہے-
پاکستان میں اس حوالے سے جو تحقیقات ہوئ ہیں وہ بھی پاکستان کی اس سے کچھ مختلف شکل پیش نہیں کرتیں۔ فوربس میگزین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، 194 ممالک جو مٹاپے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، پاکستان کا نمبر 165 واں ہے۔گویا، پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جہاں ایک بڑی تعداد مٹاپے میں مبتلا ہے اور ان میں اکثریت پندرہ سے چالیس برس کی خواتین کی ہے، کیوں کہ خواتین کیلئے یہ وہ دَور ہوتا ہےکہ جب ان میں واضح جسمانی اور بلوغی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں یا پھر شادی کے بعد وہ ماں بن جاتی ہیں۔ لڑکوں میں بازاری کھانوں کا رجحان اور جنک فوڈز اس کی بڑی وجہ ہیں۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں نقل مکانی کرتی ہوئ آبادی شہری طرزِ حیات اختیار کرتی ہے تو وہ فطرت سے دور ہوجاتی ہے اور شہر کی چٹ پٹی غذائیں، ورزش اور محنت سے دوری کے باعث وہ مٹاپے کا شکار ہوتے رہتےہیں-
اس تحریر میں میرا موضوع مٹاپے کے اسباب اور اثرات نہیں ہے (اس پر آئندہ بات کی جاسکتی ہے)، البتہ یہاں ہم اپنی مہارتِ تامہ کے اعتبار سے مٹاپے اور ذہنی امراض کے درمیان تعلق کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا چاہیں گے-
عالمی ادارۂ صحت (W. H. O ) کا کہنا ہےکہ ذہنی مسائل کا بہت گہرا تعلق وزن میں اضافے سے ہے۔ مثال کے طور پر، جو بچے attention deficit hyperactivity disorder) ADHD) کا شکار ہوتےہیں، ان میں مٹاپے کے خدشات دیگر نارمل بچوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سوئیڈش مطالعے کے مطابق، ڈپریشن میں مبتلا موٹے افراد ڈپریشن میں مبتلا کم وزن افراد کے مقابلے میں انتہائ تکلیف میں رہتے ہیں۔ ایسے ہی ذہنی امراض میں مبتلا افراد میں مٹاپے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، جبکہ موٹے افراد میں نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے کا خدشہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے آپ سمجھ سکتےہیں کہ وزن میں اضافے کا انسان کی ذہنی صحت سے کیسا گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق دو طرفہ ہے۔
اس تعلق کے کئی اسباب ہیں: موٹے لوگوں میں اپنے بارے میں تاثر منفی اور کمزور ہوتا ہے، وہ بہت کم حرکت کرتے ہیں یعنی زیادہ تر بیٹھے رہتےہیں، مٹاپے کی وجہ سے ان کے اندر حیاتی انتشار پیدا ہوجاتا ہے، ایسے افراد لوگوں سے گھلنے ملنے اور دوست بنانے سے کتراتے ہیں۔
دبلے اور ستواں افراد کے مقابلے میں موٹے افراد خواتین و حضرات میں خودتوقیری کم اور ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے۔ کئی تحقیقات سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ موٹے لوگ بہت زیادہ ڈپریشن میں رہتے ہیں۔ان میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ متاثر ہوتی ہیں، کیوں کہ وہ اپنے جسمانی خدو خال اورظاہری کیفیت کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ مردوں کو اس بات کی فکر عموماً نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کو کیسے دکھائ دیتے ہیں، لیکن عورتوں کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہےکہ وہ محفل میں موجود تمام خواتین میں سب سے اچھی اور پُرکشش دکھائ دیں۔ اور، زیادہ وزن اس خواہش کی تکمیل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
ماہرین کے مطابق، ذہنی یا نفسیاتی مسائل میں مبتلا افراد کے بہ آسانی موٹا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ سستی کا شکار ہوتے ہیں۔ صحت بخش غذاؤں کی تیاری کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے جبکہ وہ اس کی ہمت نہیں کرپاتے اور گھر میں رکھی ہوئ عام یا بازار میں دست یاب مرغن پکوان بہ فوری دست یاب ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا، وہ انھیں ترجیح دیتے ہیں۔ یوں، رفتہ رفتہ غیر وزن بڑھتا رہتا ہے۔ اگر نفسیاتی یا ذہنی مریض کوئ نفسیاتی دوا بھی لے رہا ہے تو یہ مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں۔
بہ ہر کیف، جدید طبی تحقیقات و مطالعات سے ثابت ہوتا ہےکہ مٹاپے اور ذہنی اور نفسیاتی مسائل میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ وزن میں زیادتی نہ صرف جسمانی عوارض کا پیش خیمہ بنتی ہے بلکہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل بھی اس سے جنم لیتے ہیں۔ اس لیے، اگر آپ اپنی زندگی میں صحت اور خوشی چاہتے ہیں تو اپنے وزن میں ذرا سی بڑھوتری پر بھی فکر مند ہوجائیے، کیوں کہ اگر آپ نے اس کیلئے فوری تدابیر اختیار نہ کیں تو یہ اضافۂ وزن آہستہ آہستہ آپ کو گھن کی طرح کھا جائے گا۔ اس معاملے میں دیر ہرگز نہ کیجیے۔ کیوں کہ جتنی دیر کی جائے گی، اتنا ہی یہ مسائل پیچیدہ ہوں گے، کم نہیں ہوں گے۔ ساتھ ہی کسی مستند ماہر ذہنی صحت یا ماہر غذائیات سے رجوع کیجیے تاکہ وہ آپ کو خاص آپ کی ذہنی اور جسمانی کیفیات کی مناسبت سے مشورہ دے سکے۔
Comments